مع
تزلی
مع
تزلہ مکتبہ کی بنیاد رکھنے
والے وصیر بن عطاء اصل میں ماہر الہیات حسن البصری
کے ??اگرد تھے لیکن قانونی بحث کی وجہ سے وہ الگ ہوگئے۔ اس ن
ے ا??نے قانونی اور مذہبی نظریات کی وضاحت کرتے ہوئ
ے ا??نے لیکچر دیئے، اور اس طرح ان کا گروہ مع
تزلہ (عربی میں جس کا مطلب ہے "علیحدہ کرنے
والے") کے نام سے مشہور ہوا۔ مع
تزلیوں ن
ے ا??نے عقائد کی بنیاد پر عقائد اور نظریات کا ایک مجموعہ تیار کیا، جس میں پانچ اہم نکات شامل ہیں: توحید پر پختہ یقین؛ خوارجوں اور مرجعوں
کے ??رمیان ہونے
والی شدید بحث میں اس کی طرفداری نہ کرنا؛ برائی کو چھپان
ے ا??ر اچھائی کو فروغ دینے کی ترغیب۔
مع
تزلی فلسفہ استدلال اور بحث کو قبول کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی خود مختار استدلال خدا کی ہدایات سے متصادم نہیں ہے، بلکہ ان کی تکمیل کرتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انسانوں کا اپنے ذہنوں پر مکمل کنٹرول ہ
ے ا??ر انہیں خدا کے وجود کو دریافت کرنے کے لی
ے ا??نی حکمت کا استعمال کرنا چاہیے۔ مزید برآں، وہ قرآن کی نوعیت
کے ??ارے میں ایک متبادل نظریہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بعد میں تخلیق کیا گیا ہ
ے ا??ر خدا کی طرح ابدی نہیں ہے۔ ان
کے ??اقی خیالات دوسرے سنی مفکرین سے مختلف نہیں ہیں۔
عباسی خلافت کے مامون
کے ??ور میں مع
تزلہ کی بہت قدر کی جاتی تھی اور ان کی بعض اہم شخصیات کو محل میں رتبہ حاصل تھا۔ تاہم، 847
کے ??عد، پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی آئی، حکومت ن
ے ا??
کے ??عد از قرآن تخلیق کے نظریے کو ترک کر دیا، اور مع
تزلی اقتدار سے محروم ہو گئے۔ محمد عبدو جیسے جدید مصلحین نے اسلام
کے ??
وال کی وجہ روایت پر مس?
?ما??وں کی اندھی پابندی کو قرار دیا، جس کی وضاحت ان کی اپنی ذاتی مرضی سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ انہوں نے مع
تزلہ
کے ??س نظریے کی تصدیق کی کہ آزاد مرضی کو اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، اور کہا کہ اگرچہ خدا انسانی رویے
کے ??ارے میں بصیرت رکھتا ہے، لیکن وہ ہماری آزادی پر پابندی نہیں لگاتا اور نہ ہی ہمارے طرز عمل کو آگے بڑھاتا ہے۔ اسی طرح کی سوچ رکھنے
والا ایک عالم ازمردی ازرا اپنے آپ کو نو مع
تزلی کہتا ہے۔